Monday, July 23, 2012

معاویہ تو مہمانوں کا کھانہ بھی تکتہ تھا


لعنتی نے جب بدو کو روکا تو بدوں نے کہا کہ زیبا نہیں کے کوئی شریف آدمی اپ کے دستر خان پے کھانا کھائے آپ مہمانوں کے لقمے تکتے ہیں

فضائل معاویہ اور طائفہ علماء اہلسنت


ہم اس مختصر تحریر میں اہلسنت کے خال المومنین جناب معاویہ بن ھند کے فضائل خصوصہ میں وارد روایات کے حوالہ سے طائفہ علمائے سلف و خلف کے اقوال کو پیش کیا جائے- آج کل ایک مذموم کوشش کے تحت دنیائے وھابیت میں بالعموم اور پاکستان میں دہشتگردوں میں تو یہ نعرہ بڑا عام ہیں کہ

سیاست معاویہ زندہ باد

اس نعرے پر تبصرہ کسی اور دن کا رہا- لیکن آج سردست ہم اس مذموم کوشش کو طشت از بام کرکے ابطال کرنا چاہتے ہیں جس میں مجالس، محافل، مذاکرات، بیانات، دروس وغیرہ میں خصوصی نشست کو معاویہ بن ھند کے لئے مخصوص کرے ان کے مزعوم فضائل مخصوصہ کی تشہیر کی جاتی ہیں

اس سلسلسے میں ہم نے ایک اشارہ دو سال پہلے اپنے ایک تھریڈ میں کیا تھا جس میں ابن تیمیہ کے قول سے استشہاد کیا اور ہمارے برادر عزیز حسن مولائی نے بخاری کے استاد اسحاق بن راہویہ کے قول سے احتجاج کیا

ایک شخص ھوٹ آئس نے ہماری تحریر کا جواب دینا چاہا اور ساتھ نصائح بھی کرنا چاہی- ان کی اس تحریر اور نصحیت کو بندہ احقر بڑی عزت سے نگاہ دیکھتا ہیں لیکن چونکہ ھوت آئس صاحب کی تحریر افراط و تفریط کا حسین مرقع ہیں لہذا اس پر اپنی رائے کا اظہار ہم ضمنی طور پر کرتے چلیں گے جب موقع و محل آئے گا انشاء اللہ

اس تحریر میں بعض اہلسنت کے علماء کے اقوال ذیشان کو پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے فضائل خصائص معاویہ کی نفی کی ہیں- ہم قارئین پر فیصلہ چھوڑیں گے کہ اگر ان کے اندر انصاف کی رمق باقی ہو تو وہ ضرور بالضرور معاویہ بن ھند کے بارے میں اپنی رائے میں تبدیلی لائیں گے بشرط یہ کہ وہ منصف ہو

ایک تنبیہ جو ادھر ضروری ہیں، وہ یہ کہ ادھر معاویہ کے ان عمومی مزعوم فضائل پر ہمارا تبصرہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہماری بحث کے دائرے سے فی الحال باہر ہیں- لہذاء وہ معاویہ بن ھند کے چاہنے والے جو معاویہ بن ھند کے عمومی فضائل ذکر کرکے ابطال کرنا چاہیں وہ زحمت نہ کرے-
۱،اسحاق بن راہویہ

جس راوی کی جہالت کا حکم معترض نے لگایا تھا حسن مولائی آغا کی پوسٹ کو دیکھ کر تو وہ اپنی جگہ مجھے مناسب دیکھائی دیتا ہیں- مجھے راوی کا تذکر تاریخ بغداد وغیرہ میں ملا مگر توثیق واضح نہیں- البتہ یہ بطور جزم ان علماء اہلسنت نے بطور استشہاد نقل کیا ہیں، جو الزام ہم پر لگایا جاتا ہیں وہی اعتراض ان علماء اہلسنت و سلفی پر ہوتا ہیں:

الف، ملا علی قاری
حوالہ: الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى ج 1 ص 477 المحقق: محمد الصباغ الناشر: دار الأمانة / مؤسسة الرسالة - بيروت

ب، علامہ بدر الدین عینی الحنفی
حوالہ: عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج 14 ص 249 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت

ج، علامہ ابن قیم
حوالہ: المنار المنيف في الصحيح والضعيف ج ۱ ص 116 المحقق: عبد الفتاح أبو غدة الناشر: مكتبة المطبوعات الإسلامية، حلب

د، علامہ وحید الزمان حیدرآبادی
حوالہ: تیسیر الباری شرح صحیح بخاری، جلد 5، صفحہ 90، ناشر تاج کمپنی لمیڈڈ، باب ذکر معاویہ

ز، علامہ مبارکپوی
حوالہ: تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ج ۱۰ ص 231 الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت

ہ، علامہ ابن حجر عسقلانی
حوالہ: فتح الباری، جلد 7، صفحہ 104، الناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379

اعتراض: آپ نے بھی تک صحت روایت ثابت نہیں کی

جواب: اصل میں،ہم علماء سلف کے طریق پر گامزن ہوں- ایک قاعدہ مشہورہ کو نووی یوں ذکر کرتے ہیں

وَذَلِكَ أَنَّ صِيغَةَ الْجَزْمِ تَقْتَضِي صِحَّتَهُ عَنْ الْمُضَافِ إلَيْهِ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُطْلَقَ إلَّا فِيمَا صَحَّ وَإِلَّا فَيَكُونُ الْإِنْسَانُ فِي مَعْنَى الْكَاذِبِ عَلَيْهِ


صیغہ جزم سے چیز کو نقل کرنا اس بات کی متقاضی ہیں کہ مضاف الیہ یعنی جس کی طرف نسبت ہو، اس سے صحت کا اثبات ہو- پس اس کا اطلاق اس وقت تک جائز نہیں جب کہ اس شخص سے صحت روایت ثابت نہ ہوجائے، اگر صحت روایت ثابت نہ ہو اور پھر بھی صیغہ جزم کا استعمال ہو تو یہ انسان کا اس شخص پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہیں
-

حوالہ:المجموع شرح المهذب، جلد 1، صفحہ 63، طبع دار الفکر

ہوٹ آئس یقینا برادر عزیز حسن مولائی کو اس معاملہ میں آپ کے علماء سے حسن ظن ہیں ورنہ پھر سب کو جھوٹا کہنا پڑے گا- یہ بات کم سے کم ہمیں برداشت نہیں


اس قاعدہ جلیلہ کو محدثین اثر میں سے علامہ البانی نے بھی نقل کیا ہیں

حوالہ: دفاع عن الحديث النبوي والسيرة، ص 47
۲، طاہر فتنی

اپنی کتاب میں مولف رقم طراز ہیں:

قَالَ لَا يَصح مَرْفُوعا فِي فضل مُعَاوِيَة شَيْء


فضائل معاویہ میں کوئی حدیث مرفوعا یعنی رسول اللہ ص سے صحیح ثابت نہیں

حوالہ: تذكرة الموضوعات ج ۱ ص 100 الناشر: إدارة الطباعة المنيرية

۳، علامہ بدر الدین عینی الحنفی

موصوف رقم طراز ہیں:

فَإِن قلت: قد ورد فِي فضيلته أَحَادِيث كَثِيرَة. قلت: نعم، وَلَكِن لَيْسَ فِيهَا حَدِيث يَصح من طَرِيق الْإِسْنَاد


اگر آپ کہیں کہ معاویہ کی فضیلت میں کثیر احادیث وارد ہوئی ہیں، میں کہوں گا کہ جی بالکل نقل ہوئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں


حوالہ: عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج 14 ص 249 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت

۴، بخاری

اگرچہ اس پر مناقشہ کیا جاسکتا ہیں- چونکہ علماء اہلسنت و سلفی اس بات پر مختلف آراء رکھتے ہیں، ہم دونوں کی آراء سے واقف ہیں اور زبردستی اپنی رائے مسلط کرنا صواب نہیں سمجھتے- لہذاء ان کی کنایتہ ذکر باب کو علامہ عینی کے قول سے مطابقت دینے کی کوشش کرتے ہیں- یہ ایک واشگاف حقیقت ہیں کہ علامہ بخاری نے اپنی صحیح میں باب ذکر معاویتہ قرار دیا بنسبت باب فضیلتہ معاویہ جیسے کہ اکثر اصحاب نبوی ص کے طریقہ کار کو انتخاب کیا گیا- اس ذکر والے لفظ نے علامہ عینی کو اس بات پر کہنے پر مجبور کیا:

إِن فِيهِ ذكر مُعَاوِيَة، وَلَا يدل هَذَا على فضيلته

اس باب میں معاویہ کا ذکر ہے جو فضیلت پر دال نہیں

حوالہ: عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج 14 ص 249 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت

 

معاویہ کی بدعتیں

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ معاویہ کی بدعتیں متعدد ہیں : ہم ان میں سے چند کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں:
۱۔ عید اور بقرعید کی نماز میں اذان کہنے کی بدعت معاویہ نے شروع کی
”شافعی“ نے اپنی کتاب ”الام“(۱) میں زہری کی سند سے نقل کیا ہے : پیغمبر اسلام (ص)، ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے میں عید کی نماز میں اذان نہیں کہی گئی، ان کے بعد شام میں معاویہ نے اس بدعت کو رائج کیا اور اس کے بعدجب ”حجاج“ مدینہ کا گورنر بنا تو مدینہ میں اس نے یہ بدعت رائج کی۔
”ابن حزم“ اپنی کتاب ”المحلی“(۲)میںلکھتا ہے : بنی امیہ نے جو بدعتیں رائج کیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
الف ۔ نماز عید کیلئے دیر سے جانا ۔
ب ۔ نماز عید سے پہلے خطبہ پڑھنا۔
ج ۔ عید کی نماز میں اذان و اقامت کہنا۔
۲۔ دیت کے مسئلہ میں معاویہ کی بدعت
”ضحاک“ اپنی کتاب ”الدیات“ (۳)میں محمد بن اسحاق سے نقل کرتا ہے : میں نے زہری سے کہا : مجھے کافر ذمی کی دیت کے بارے میں بتاوٴ کہ پیغمبر اکرم(ص)کے زمانے میں اس کی مقدار کتنی تھی؟ کیونکہ اس کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اس نے کہا : مشرق و مغرب میں اس مسئلہ کے بارے میں مجھے سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) ، ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے میں دیت کی مقدار ایک ہزار دینار تھی یہاں تک کہ معاویہ نے مقتول کے اولیاء کو پانچ سو دینار اور بیت المال کے لئے پانچ سو دینار کو معین کیا۔
ابن کثیر ”البدایة والنھایة“(۴)میں لکھتا ہے :
زہری کہتا ہے : شروع سے سنت یہ تھی کہ کافر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر تھی اور معاویہ پہلا وہ شخص ہے جس نے اس کو آدھی کردی اور آدھی دیت کو اپنے سے مخصوص کرلی(۵)۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے : کافر ذمی کی دیت جیسا کہ زہری نے بیان کیا ہے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک ہزار دینار نہیں تھی اور ابوحنیفہ کے علاوہ ان کے آئمہ مذاہب میں سے کسی ایک نے بھی ایک ہزار دینا بیان نہیں کیا ہے ۔ اور سب سے پہلے جس شخص نے اس کو ایک ہزار دینا کیا وہ عثمان تھا(۶)بہر حال اس کام میں معاویہ نے تین بدعتیں ایجاد کیں:
الف۔ اس نے دیت کو ایک ہزار دینار قرار دیا
ب۔ دیت کو مقتول کے ورثاء اور بیت المال کے درمیان تقسیم کیا۔
ج۔ دیت میں سے آدھا حصہ بیت المال کا قرار دیا اس چیز کو فرض کرتے ہوئے کہ ایک ہزار دینار سنت تھی اور بیت المال کا اس میں حصہ تھا۔
۳۔نماز میں مستحبی تکبیروں کو ختم کرنا
کتاب ”شرح الموطا“ میں اس طرح بیان ہوا ہے : ”طبری“ نے ”ابوہریرہ“ سے نقل کیا: سب سے پہلے جس نے نماز سے مستحبی تکبیروں کو ختم کیا ہے وہ معاویہ تھا۔ اور ”ابوعبید“ کی روایت کے مطابق : سب سے پہلا شخص زیاد تھا ۔
”ابن حجر“ نے اپنی کتاب فتح الباری میں (۷) لکھا ہے:
ان دونوں روایتوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ ”زیاد“ نے معاویہ کی پیروی میں تکبیروں کو نہیں کہا ہے اور معاویہ نے عثمان کی پیروی میں تکبیروں کو چھوڑا ہے(۸)۔ لیکن علماء کے ایک گروہ نے اس کو آہستہ کہنے پر حمل کیا ہے۔
اور کتاب ”الوسائل الی مسامرة الاوائل“(۹)میں آیا ہے:
سب سے پہلے جس نے تکبیروں کوترک کیا وہ معاویہ ہے وہ ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد بغیر تکبیر کہے سجدہ میں چلا جاتا تھا۔
شافعی اپنی کتاب ”الام“(۱۰)میں ”عبید بن رفاعہ“ سے نقل کرتا ہے : معاویہ نے جب مدینہ میں آکر نماز پڑھی تو نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھی اور نماز کی حرکات وسکنات میں تکبیروں کو نہیں کہا ۔ نماز کے بعد مہاجر و انصار نے فریاد بلند کی : یا معاویہ !سرقت صلاتک، این بسم اللہ الرحمن الرحیم؟ و این التکبیر اذا خفضت و اذا رفعت؟! ائے معاویہ تم نے نماز سے چوری کی ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہاں گئی؟ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت کی تکبیریں کہاں گئیں؟!۔ اس نے دوبارہ نماز پڑھائی اور جن چیزوں کا اس پر اعتراض کیا گیا تھا اس کو دوبارہ پڑھا۔
۴۔ نماز عید میں خطبوں کو پہلے پڑھنے کی بدعت
”عبدالرزاق“، ”ابن جریج“ اور زہری“ سے نقل کرتا ہے (۱۱): جس شخص نے سب سے پہلے عید کی نماز میں نماز سے پہلے خطبہ پڑھا وہ معاویہ تھا۔ اور ابن منذر نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے : سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں اس بدعت کو رائج کیا وہ ”زیاد“ تھا۔ ”عیاض“ کہتا ہے : ان دونوں بیانات اور اس بیان میں جس میں مروان کا نام آیا ہے کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ مروان اور زیاد ،معاویہ کے ․․․․․․․کارندوں میں تھے ۔ لہذااس کام کو پہلے معاویہ نے شروع کیا اور انہوں نے اس کی پیروی کی(۱۲)۔
1 ـ کتاب الاُمّ 1 : 208 ]1/235[ .
2 ـ المحلّى : 5 : 82 .
3 ـ الدیات : 50 .
4 ـ البدایة والنهایة 8 : 139 [8/148 ، حوادث سال 60 هـ [ .
5 ـ [قسمت داخل کروشه از منبع اصلى آورده شده است[ .
6 ـ مراجعه شود: الاُمّ ، شافعى 7 : 293 [7 / 321 ;ر . ک : الغدیر 8/240 ـ 248[ .
7 ـ فتح الباری 2 : 215 .
8 ـ احمد در مسند [5/597 ، ح 19380] از عمران این روایت را نقل مى کند.
9 ـ الوسائل إلى مسامرة الأوائل : 15 .
10 ـ کتاب الاُمّ 1 : 94 [1/108[ .
11 ـ المصنّف [3 / 284 ، ح 5646[ .
12 ـ شفیعی شاہرودی، الغدیر سے منتخب اشعار، ص 982 و 986 و 987 و 992