Monday, July 23, 2012

معاویہ کی بدعتیں

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ معاویہ کی بدعتیں متعدد ہیں : ہم ان میں سے چند کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں:
۱۔ عید اور بقرعید کی نماز میں اذان کہنے کی بدعت معاویہ نے شروع کی
”شافعی“ نے اپنی کتاب ”الام“(۱) میں زہری کی سند سے نقل کیا ہے : پیغمبر اسلام (ص)، ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے میں عید کی نماز میں اذان نہیں کہی گئی، ان کے بعد شام میں معاویہ نے اس بدعت کو رائج کیا اور اس کے بعدجب ”حجاج“ مدینہ کا گورنر بنا تو مدینہ میں اس نے یہ بدعت رائج کی۔
”ابن حزم“ اپنی کتاب ”المحلی“(۲)میںلکھتا ہے : بنی امیہ نے جو بدعتیں رائج کیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
الف ۔ نماز عید کیلئے دیر سے جانا ۔
ب ۔ نماز عید سے پہلے خطبہ پڑھنا۔
ج ۔ عید کی نماز میں اذان و اقامت کہنا۔
۲۔ دیت کے مسئلہ میں معاویہ کی بدعت
”ضحاک“ اپنی کتاب ”الدیات“ (۳)میں محمد بن اسحاق سے نقل کرتا ہے : میں نے زہری سے کہا : مجھے کافر ذمی کی دیت کے بارے میں بتاوٴ کہ پیغمبر اکرم(ص)کے زمانے میں اس کی مقدار کتنی تھی؟ کیونکہ اس کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اس نے کہا : مشرق و مغرب میں اس مسئلہ کے بارے میں مجھے سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) ، ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے میں دیت کی مقدار ایک ہزار دینار تھی یہاں تک کہ معاویہ نے مقتول کے اولیاء کو پانچ سو دینار اور بیت المال کے لئے پانچ سو دینار کو معین کیا۔
ابن کثیر ”البدایة والنھایة“(۴)میں لکھتا ہے :
زہری کہتا ہے : شروع سے سنت یہ تھی کہ کافر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر تھی اور معاویہ پہلا وہ شخص ہے جس نے اس کو آدھی کردی اور آدھی دیت کو اپنے سے مخصوص کرلی(۵)۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے : کافر ذمی کی دیت جیسا کہ زہری نے بیان کیا ہے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک ہزار دینار نہیں تھی اور ابوحنیفہ کے علاوہ ان کے آئمہ مذاہب میں سے کسی ایک نے بھی ایک ہزار دینا بیان نہیں کیا ہے ۔ اور سب سے پہلے جس شخص نے اس کو ایک ہزار دینا کیا وہ عثمان تھا(۶)بہر حال اس کام میں معاویہ نے تین بدعتیں ایجاد کیں:
الف۔ اس نے دیت کو ایک ہزار دینار قرار دیا
ب۔ دیت کو مقتول کے ورثاء اور بیت المال کے درمیان تقسیم کیا۔
ج۔ دیت میں سے آدھا حصہ بیت المال کا قرار دیا اس چیز کو فرض کرتے ہوئے کہ ایک ہزار دینار سنت تھی اور بیت المال کا اس میں حصہ تھا۔
۳۔نماز میں مستحبی تکبیروں کو ختم کرنا
کتاب ”شرح الموطا“ میں اس طرح بیان ہوا ہے : ”طبری“ نے ”ابوہریرہ“ سے نقل کیا: سب سے پہلے جس نے نماز سے مستحبی تکبیروں کو ختم کیا ہے وہ معاویہ تھا۔ اور ”ابوعبید“ کی روایت کے مطابق : سب سے پہلا شخص زیاد تھا ۔
”ابن حجر“ نے اپنی کتاب فتح الباری میں (۷) لکھا ہے:
ان دونوں روایتوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ ”زیاد“ نے معاویہ کی پیروی میں تکبیروں کو نہیں کہا ہے اور معاویہ نے عثمان کی پیروی میں تکبیروں کو چھوڑا ہے(۸)۔ لیکن علماء کے ایک گروہ نے اس کو آہستہ کہنے پر حمل کیا ہے۔
اور کتاب ”الوسائل الی مسامرة الاوائل“(۹)میں آیا ہے:
سب سے پہلے جس نے تکبیروں کوترک کیا وہ معاویہ ہے وہ ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد بغیر تکبیر کہے سجدہ میں چلا جاتا تھا۔
شافعی اپنی کتاب ”الام“(۱۰)میں ”عبید بن رفاعہ“ سے نقل کرتا ہے : معاویہ نے جب مدینہ میں آکر نماز پڑھی تو نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھی اور نماز کی حرکات وسکنات میں تکبیروں کو نہیں کہا ۔ نماز کے بعد مہاجر و انصار نے فریاد بلند کی : یا معاویہ !سرقت صلاتک، این بسم اللہ الرحمن الرحیم؟ و این التکبیر اذا خفضت و اذا رفعت؟! ائے معاویہ تم نے نماز سے چوری کی ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہاں گئی؟ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت کی تکبیریں کہاں گئیں؟!۔ اس نے دوبارہ نماز پڑھائی اور جن چیزوں کا اس پر اعتراض کیا گیا تھا اس کو دوبارہ پڑھا۔
۴۔ نماز عید میں خطبوں کو پہلے پڑھنے کی بدعت
”عبدالرزاق“، ”ابن جریج“ اور زہری“ سے نقل کرتا ہے (۱۱): جس شخص نے سب سے پہلے عید کی نماز میں نماز سے پہلے خطبہ پڑھا وہ معاویہ تھا۔ اور ابن منذر نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے : سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں اس بدعت کو رائج کیا وہ ”زیاد“ تھا۔ ”عیاض“ کہتا ہے : ان دونوں بیانات اور اس بیان میں جس میں مروان کا نام آیا ہے کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ مروان اور زیاد ،معاویہ کے ․․․․․․․کارندوں میں تھے ۔ لہذااس کام کو پہلے معاویہ نے شروع کیا اور انہوں نے اس کی پیروی کی(۱۲)۔
1 ـ کتاب الاُمّ 1 : 208 ]1/235[ .
2 ـ المحلّى : 5 : 82 .
3 ـ الدیات : 50 .
4 ـ البدایة والنهایة 8 : 139 [8/148 ، حوادث سال 60 هـ [ .
5 ـ [قسمت داخل کروشه از منبع اصلى آورده شده است[ .
6 ـ مراجعه شود: الاُمّ ، شافعى 7 : 293 [7 / 321 ;ر . ک : الغدیر 8/240 ـ 248[ .
7 ـ فتح الباری 2 : 215 .
8 ـ احمد در مسند [5/597 ، ح 19380] از عمران این روایت را نقل مى کند.
9 ـ الوسائل إلى مسامرة الأوائل : 15 .
10 ـ کتاب الاُمّ 1 : 94 [1/108[ .
11 ـ المصنّف [3 / 284 ، ح 5646[ .
12 ـ شفیعی شاہرودی، الغدیر سے منتخب اشعار، ص 982 و 986 و 987 و 992

No comments:

Post a Comment